تحریر: ہما فاطمہ
حوزه نیوز ایجنسی | احمد مجتبی محمد مصطفی ص کے نواسے، مولا علی ع اور حضرت فاطمہ س کے پہلے بیٹے 15 رمضان المبارک سن 3 ہجری کو شہر مدینہ میں پیدا ہوئے۔
امام حسن مجتبی (ع) ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے، جو وحی اور فرشتوں کے نازل ہونے کی جگہ تھی۔ وہی گھرانہ کہ جس کی پاکیزگی اور طہارت کے بارے میں قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّہ لِيُذْھبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ اھلَ الْبَيْتِ وَيُطَہرَكُمْ تَطْہيرًا۔_
ترجمہ: بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جیسا کہ پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔(سورہ احزاب، آیت 33)
اس طرح خداوند سبحان نے قرآن کریم میں اس گھرانے کی بار بار تحسین کی ہے۔
ایک دن ام الفضل رسول اکرم کے چچا عباس کی زوجہ رسول اللہ (ص) کی خدمت میں آئیں اور کہا یا رسول اللہ میں نے گذشتہ شب بڑا برا خواب دیکھا ہے میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے جسم مبارک کے اعضاء میں سے ایک عضو میری آغوش میں ہے۔
آپ ص نے ارشاد فرمایا: اس کی تعبیر یہ ہے کہ فاطمہ زہرا کے یہاں ایک فرزند پیدا ہو گا اور تم اس کی دایہ بنو گی۔
چنانچہ جب فاطمہ زہرا کے یہاں امام حسین کی ولادت ہوئی تو آنحضرت ص نے انھیں ام الفضل کے حوالے کیا اور ام الفضل نے انھیں قثم بن عباس کے دودھ میں شریک کرلیا۔
امام حسن مجتبی (ع) ، امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب (ع) اور سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زہرا (س) کے پہلے فرزند تھے۔ اسی لیے ان کا تولد پیغمبر اکرم (ص)، انکے اہل بیت اور اس گھرانے کے تمام چاہنے والوں کی خوشیوں کا باعث بنا۔
پیغمبر اکرم (ص) نے مولود کے دائیں کان میں اذان اور بائيں کان میں اقامت کہی۔
زید بن علی ع نے اپنے پدر بزرگوار حضرت امام علی ابن الحسین ع سے روایت کی ہے کہ جب امام حسن علی السلام پیدا ہوئے تو حضرت فاطمہ زہرا نے حضرت علی سے سے کہا کہ اس بچے کا کوئی نام تو رکھے۔ حضرت علی ع نے فرمایا؛ نہیں میں اس کا نام رکھنے میں جناب رسول اللہ ص پر سبقت نہیں کروں گا۔ اتنے میں جناب رسول اللہ ص تشریف لائے تو آپ ص نے حضرت علی ع سے فرمایا: تم نے اس کا کوئی نام بھی رکھا ہے؟ حضرت علی ع نے عرض کی، میں اس کا نام رکھنے میں آپ پر ہر گز سبقت نہ کروں گا۔ آنحضرت ص نے فرمایا: میں بھی اس کا نام رکھنے میں اپنے پروردگار پر سبقت نہ کروں گا۔ پس اللہ تعالے نے جبرائیل امین کو بذریعہ وحی حکم دیا کہ: سنو! محمد کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا ہے، ان کے پاس اُتر کر جاؤ اُنھیں میر اسلام کہو، میری طرف سے مبارک باد دو اور کہو کہ علی ع کو تم سے وہی نسبت ہے جو ہارون ع کو موسیٰ ع سے نسبت تھی لہذا اس (فرزند) کا نام بھی وہی رکھ دوجوہ ہارون ع کے فرزند کا نام تھا۔ یہ حکم پا کر جبرائیل امین نازل ہوئے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبارک باد دی اور کہا اللہ تعالی کا حکم ہے کہ اس (فرزند) کا وہی نام رکھو جو ہارون ع کے فرزند کا نام تھا۔ آنحضرت نے پوچھا کہ ہارون کے فرزند کا کیا نام تھا؟ جبرائیل ع نے کہا اُس کا نام شبر تھا۔
آپ ص نے فرمایا: مگر یہ تو عبرانی لفظ ہے اور میری زبان عربی ہے۔
تب جبرائیل ع نے کہا، پھر اس کا نام حسن ع رکھ دیجئے(جو شبیر کے ہم معنی ہے) تو حضور ص نے اُن كا نام حسن رکھ دیا۔
علل الشرائع میں ہے کہ جب امام حسن (ع) کی ولادت ہوئی اور آپ سرور کائنات ص کی خدمت میں لائے گئے تو رسول کریم ص بے انتہاء خوش ہوئے اور ان کے دہن مبارک میں اپنی زبان اقدس دے دی۔
بحار الانور میں ہے کہ آنحضرت ص نے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسن اسے چوسنے لگے اس کے بعد آپ نے دعا کی:
خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ امام حسن کو لعاب دہن رسول ص کم اور امام حسین کو زیادہ چوسنے کا موقع دستیاب ہوا تھا، اسی لیے امامت نسل حسین میں مستقر ہو گئی۔
آپ کی ولادت کے ساتویں دن سرکار کائنات نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی صدقے میں دی۔
امام حسن مجتبی (ع) کے بہت سے القاب ہیں از جملہ: سبط اكبر، سبط اول، طيب، قائم، حجت، تقی، زكی، مجتبی امير، امين، زاہد و برّ مگر سب سے زیادہ مشہور لقب، مجتبی ہے اور شیعہ آنحضرت کو کریم اہل بیت کہتے ہیں۔
ان حضرت کی کنیت، ابو محمد ہے۔
زیارت عاشورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا لقب ناصح اور امین بھی تھا۔
امام حسن مجتبیٰ (ع) باوقار اور متین شخصیت کے حامل تھے۔ آپ غریبوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ راتوں کو ان کے درمیان کھانا تقسیم کیا کرتے تھے۔ ان کی ہر طرح سے مدد کیا کرتے تھے۔ اسی لیے سارے لوگ بھی آپ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں دوبار اپنی ساری دولت و ثروت غریبوں اور فقیروں میں تقسیم کر دی تھی۔ تین بار اپنی جائیداد کو وقف کیا تھا جس میں سے آدھی اپنے لیے اور آدھی راہ خدا میں بخش دی تھی۔
امام حسن مجتبیٰ (ع) نہایت شجاع اور بہادر بھی تھے۔ اپنے بابا امام علی (ع) کے ساتھ جب آپ جنگ کرنے جاتے تھے تو، فوج میں آگے ہی آگے رہتے تھے۔ جنگ جمل اور صفین میں آپ نے بہت خطرناک جنگیں لڑی تھیں۔ حضرت علی (ع) کی شہادت کے بعد آپ نے صرف 6 مہینے حکومت کی تھی۔
امام حسن مجتبی (ع) سات سال تک پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ رہے۔
رسول اکرم (ص) اپنے نواسے سے بہت پیار کرتے تھے۔ کبھی اس کو اپنے کاندھے پر سوارکرتے
اور فرماتے ہیں:
خدایا میں اس سے محبت کرتا ہوں، آپ بھی اس سے محبت فرما۔
اور پھر فرماتے ہیں:
من احبّ الحسن و الحسین (ع) فقد احبّنی و من ابغضھما فقد ابغضنی۔_
جس نے حسن (ع) و حسین (ع) سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی، اس نے مجھ سے دشمنی کی۔
امام حسن (ع) کی عظمت اور بزرگی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ کم سنی کے با وجود پیغمبر اکرم (ص) نے بہت سے عہد ناموں میں آپ کو گواہ بنایا تھا۔
واقدی نے نقل کیا ہے کہ رسول خدا ص نے قبیلہ ثقیف کے ساتھ ذمّہ والا معاہدہ کیا، خالد ابن سعید نے عہد نامہ لکھا اور امام حسن و امام حسین ع اس کے گواہ قرار پائے۔
مباہلے میں امام حسن کی موجودگی، اور آپ ع کا اصحاب کساء میں سے ہونا ، رسول خدا کے نزدیک آپ کی اہمیت اور آپ کے اعتبار کی علامت ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ امام حسن مجتبیٰ بیعت رضوان میں موجود تھے اور نبی اکرم نے ان سے بیعت لی تھی۔
رسول خدا (ص) سے نقل ہوا ہے کہ:
اگر عقل کسی انسان کی صورت میں مجسم ہوتی، تو وہ حسن ہوتے۔
امام حسن ع کی بردباری بے مثال تھی۔ ایک شخص شام سے آیا ہوا تھا اور معاویہ ملعون کے اکسانے پر اس نے امام (ع) کو برا بھلا کہا۔ امام (ع) نے سکوت اختیار کیا، پھر آپ نے اس کو مسکرا کر نہایت شیرین انداز میں سلام کیا اور کہا:
اے محترم انسان میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور میں گمان کرتا ہوں کہ تم کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اگر تم مجھ سے میری رضا مندی کے طلبگار ہو یا کوئی چیز چاہیے تو میں تم کو دونگا اور ضرورت کے وقت تمہاری راہنمائی کروں گا۔ اگر تمہارے اوپر قرض ہے تو، میں اس قرض کو ادا کروں گا۔ اگر تم بھوکے ہو تو میں تم کو سیر کر دوں گا اور اگر میرے پاس آؤ گے تو زیادہ آرام محسوس کرو گے۔
وہ شخص شرمسار ہوا اور رونے لگا اور اس نے عرض کی:
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین شخص تھے لیکن اب آپ میری نظر میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔
اس کے علاوہ مروان ابن حکم کہ جو آپ کا سخت دشمن تھا۔ آپ (ع) کی رحلت کے بعد اس نے آپ کی تشیع جنازہ میں شرکت کی، امام حسین (ع) نے پوچھا میرے بھائی کی حیات میں تم سے جو ہو سکتا تھا، وہ تم نے کیا لیکن اب تم ان کی تشییع جنازہ میں شریک اور رو رہے ہو؟ مروان نے جواب دیا: میں نے جو کچھ کیا اس شخص کے ساتھ کیا کہ جس کی بردباری پہاڑ (کوہ مدینہ کی طرف اشارہ) سے زیادہ تھی۔
امام حسن (ع) کی اخلاقی شخصیت ہر جہت سے کامل تھی۔ آپ کے وجود مقدس میں انسانیت کی اعلی ترین نشانیاں جلوہ گر تھیں۔
جلال الدین سیوطی اپنی تاریخ کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ:
حسن ابن علی (ع) اخلاقی امتیازات اور بے پناہ انسانی فضائل کے حامل تھے۔ ایک بزرگ، باوقار، بردبار، متین، سخی، نیز لوگوں کی محبتوں کا مرکز تھے۔
حضرت امام حسن ع خداوند کی طرف سے مخصوص توجہ کے حامل تھے اور اس توجہ کے آثار کبھی وضو کے وقت آپ کے چہرہ پر لوگ دیکھتے تھے، جب آپ وضو کرتے تو اس وقت آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا اور آپ کاپنے لگتے تھے۔ جب لوگ سبب پوچھتے تو فرماتے تھے:
حقٌ علی کل من وقف بین یدی رب العرش ان یصفر لونہ و ترتعد مفاصلہ۔
جو شخص خدا کے سامنے کھڑا ہو، اس کے لیے اس کے علاوہ اور کچھ مناسب نہیں ہے۔
امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:
امام حسن (ع) اپنے زمانے کے عابد ترین اور زاہد ترین شخص تھے۔ جب موت اور قیامت کو یاد فرماتے تو روتے ہوئے بے قابو ہو جاتے تھے۔
امام حسن (ع) اپنی زندگی میں 25 بار پیادہ اور کبھی پا برہنہ زیارت خانہ خدا کو تشریف لے گئے تا کہ خدا کی بارگاہ میں زیادہ سے زیادہ ادب و خشوع پیش کر سکیں اور زیادہ سے زیادہ اجر لے سکیں۔
امام حسن ع کی زندگی مبارک ہر طرح سے ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ اللہ تعالی ہمیں امام حسن ع کی سیرت پر چلنے کو توفیق عطا فرمائے! آمین